۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ جس طرح بغیر ذکر علی علیہ السلام کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ممکن نہیں اسی طرح بغیر ذکر عباس علیہ السلام کے ذکر حسین علیہ السلام ممکن نہیں، جس طرح جناب امیر باب مدینہ العلم یعنی باب النبی ہیں اسی طرح مولا عباس باب الحسین علیہ السلام ہیں، اگر امام حسین علیہ السلام تک جانا ہے تو پہلے حضرت عباس علیہ السلام تک پہنچنا ہو گا۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنو/ علمدار کربلا حضرت عباس علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے موقع پر مسجد کالا امام باڑہ میں جشن مسرت منعقد ہوا۔ مولانا سید علی ہاشم عابدی صاحب امام جماعت مسجد کالا امام باڑہ نے حضرت عباس علیہ السلام کی زیارت کے فقرہ "السلام علیک ایھا العبد الصالح" (ائے اللہ کے صالح بندے آپ پر سلام ہو) کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ والعصر میں قسم کھا کر کہا کہ "تمام انسان خسارے میں ہیں۔ سوائے انکے جو ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا اور انھوں نے حق و صبر کی تلقین کی" یعنی انسان کو اگر کوئی چیز خسارے سے بچا سکتی ہے تو وہ ایمان و عمل صالح ہے یعنی انسان اگر عبد صالح بن جائے تو وہ کامیابی سے ہمکنار ہو جائے گا اور انہیں عبد صالح کی قرآن کریم میں اللہ نے مختلف مقامات پر مدح فرمائی ہے جیسے سورہ بینہ میں ارشاد ہوا "إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ" (بے شک جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا وہی خیر بریہ ہیں) اسی طرح اللہ نے قرآن کریم میں عبد صالح کو جنت کا مستحق بتایا ہے، اگر ان تمام آیات کی روشنی میں مولا عباس علیہ السلام کی زیارت پڑھیں تو محسوس ہو گا کہ یہ قرآنی آیات آپ کی کامیابی کی سند ہیں۔ 

مزید بیان کیا کہ جس طرح بغیر ذکر علی علیہ السلام کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ممکن نہیں اسی طرح بغیر ذکر عباس علیہ السلام کے ذکر حسین علیہ السلام ممکن نہیں، جس طرح جناب امیر باب مدینہ العلم یعنی باب النبی ہیں اسی طرح مولا عباس باب الحسین علیہ السلام ہیں، اگر امام حسین علیہ السلام تک جانا ہے تو پہلے حضرت عباس علیہ السلام تک پہنچنا ہو گا۔ 

مولانا سید علی ہاشم عابدی نے بیان کیا کہ قرآن کریم میں اللہ فرماتا ہے "جو لوگ میری راہ میں کوشش کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنے راستوں کی رہنمائی کریں گے۔" یعنی انسان اگر اپنی ہستی کو راہ خدا میں فنا کر دے تو اللہ بقا کو اس کا مقدر بنا دیتا ہے اور صرف وہ خود نہیں باقی رہتا بلکہ جو اس سے متمسک ہو جائے تو بقا اس کا بھی مقدر بن جاتا ہے، اللہ اسے اپنے صفات سے آراستہ کر دیتا ہے اور یہی انسان زمین پر خلیفہ خدا بن جاتا ہے ، ولی خدا بن جاتا، اللہ اسے تکوینیات میں تصرف کا حق عطا کرتا ہے, ان مطالب کی روشنی میں اگر ہم حضرت عباس علیہ السلام کی ماثورہ زیارت کے فقرہ کو پڑھیں "أشهد أنك جاهدت" ( میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے جد جہد فرمائی، کوشش کی) تو مولا عباس علیہ السلام کی عظمتوں کا اندازہ ہو گا اور آپ کا "باب الحوئج" ہونا بھی واضح ہو جائے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .